ہنسی کھنکتی ہوئی
یا بُجھی بُجھی خوشیاں
ہیں دوستی کی مہک سے
یہ رچی ہوئی گھڑیاں
مزہ انوکھا سا
آتے جاتے لمحوں میں
کتابیں گود میں پھیلی
ہیں کھوئے باتوں میں
رفاقتوں میں خزانہ
جو ہم نے پایا ہے
نہ دل پہ بوجھ ہے کوئی
نہ غم کا سایہ ہے
ہمیں یہ دُھن ہے کہ خوشبو
کو ہم تو دیکھیں گے
یقین ہے کہ ستاروں کو
بڑھ کے چُھو لیں گے
کھلا یہ راز بچھڑنا
بھی تھا بہاروں کو
کسی کے ہاتھ نہیں
چُھو سکے ستاروں کو
کبھی دریچوں میں شمعیں
جو ہم جلاتے ہیں
تو گیت لہجے خیالوں
میں گنگناتے ہیں
By Hasan Akbar Kamal
No comments:
Post a Comment